فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی ترجمان وسکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اگر کسی وجہ سے دو قوموں کے درمیان جنگ ہو گئی اور اس میں ایک قوم نے فتح حاصل کر لی تو مفتوح قوم کی دولت کے بارے میں فاتح کے لئے کیا حکم ہے؟ اس سلسلہ میں شرعی نقطۂ نظر یہ ہے کہ اگر ان دو قوموں کے درمیان پہلے سے اس سلسلہ میں کوئی معاہدہ موجود ہو تو اس معاہدہ پر عمل کرنا واجب ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: أوفوا بالعقود(مائدہ: ۱) باہمی معاہدات کی پاسداری کرو، یہی حکم اس وقت بھی ہوگا جب بین الاقوامی سطح پر جنگ کا قانون مرتب کیا گیا ہو اور اس پر مختلف ملکوں کے نمائندوں نے دستخط کئے ہوں، وہ سب لوگ اس وعدہ میں شامل سمجھے جائیں گے اور ان کے لئے اس پر عمل کرنا ضروری ہوگا۔ اسلام جس دور میں آیا اُس وقت کوئی بین قومی یا بین ملکی معاہدہ نہیں تھا، خاص کر جنگی حالات سے متعلق، فاتح قوم جہاں مفتوح قوم کو جانی ومالی نقصان پہنچاتی تھی، ان کی عزت وآبرو سے بھی کھیلتی تھی، مال ودولت بھی لوٹ لیتی تھی، اسلام میں مفتوح قوم کے جس مال کو مسلمان فوج اپنے قبضہ میں لے لے'' مالِ غنیمت '' کہا جاتا ہے، افسوس کہ جن لوگوں کی غارت گری نے پوری دنیا کو تنگ کر رکھا ہے اور جو زیادہ تر دوسروں کے معاشی وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے جنگ کرتے ہیں، وہ '' اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے'' کے مصداق اسلام پر اعتراض کرتے ہیں اور ان آیات کو نشانہ بناتے ہیں، جن میں مالِ غنیمت کا ذکر آیا ہے، خاص طور پر ان دو آیتوں کو: (۱) فکُلوا مِمّا غَنِمتم حلالاََ طیبا واتّقوا اللّہ إنّ اللّہ غفور رحیم، (انفال: ۶۹) جو مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے، اسے پاکیزہ اور حلال سمجھ کر کھاؤاور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ معاف کرنے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔ (۲) وَعَدَکُم اللّہ مغانِمَ کثیرۃ تأخذونھا فعجّل لکم ھٰذہ وکفّ أیدِیَ الناسِ عنکم ولِتَکون آیۃ للمؤمنین ویھدیَکم صراطا مستقیماََ (الفتح:۲۰) اللہ نے تم سے ''ڈھیر سارا مال ِغنیمت جو تم حاصل کروگے'' کا وعدہ فرمایا ہے تو تم کو جلد ہی یہ عطا فرما دیں گے اور تم سے لوگوں کے ہاتھ روک دیں گے؛ تاکہ یہ مسلمانوں کے لئے قدرت کا ایک نمونہ ہو اور اللہ تم کو سیدھے راستے پر چلاتے رہیں۔ ان دونوں آیتوں میں مالِ غنیمت کا ذکر ہے، اس کا ترجمہ وی ایچ پی کے پمفلٹ میں '' لوٹ کے مال'' سے کیا گیا ہے اور یہ تصور دیا گیا ہے کہ مسلمان غیر مسلموں کا جو بھی مال لوٹ لیں، وہ ان کے لئے جائز اور حلال ہے، یہ محض ایک پروپیگنڈہ ہے، یہ آیات ہر غیر مسلم سے متعلق نہیں ہیں؛ بلکہ یہ ان لوگوں سے متعلق ہیں جو مسلمانوں سے بر سرِ جنگ ہوںکہ اگر مسلمان اُن پر فتح پائیں اور جنگجو حضرات قید کر لئے جائیں تو ان کا مال مالِ غنیمت ہوگا، عربی زبان میں مشقت کے بغیر کسی چیز کے حاصل ہونے کو '' غنم'' ('' غ'' پر پیش یا زبر) کہتے ہیں، (القاموس المحیط:۱۴۷۶)چوں کہ جنگ سے حاصل ہونے والے مال میں تجارت یا زراعت کی مشقت نہیں اٹھائی جاتی؛ اس لئے اس کو '' مالِ غنیمت'' کہتے ہیں، غنیمت کا ترجمہ '' لوٹ کے مال'' سے درست نہیں ہے، لوٹ تو ایک غیر قانونی طریقہ ہے، اسلام میں یہ حکم ہے کہ جب کوئی قوم مسلمانوں سے بر سرِ جنگ ہو اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہو تو جہاں تک ممکن ہو، باغات اور کھیتوں کو تاخت وتاراج نہ کیا جائے، مکانات منہدم نہ کئے جائیں، اپنے طور پر شکست خوردہ لوگوں کا مال لے کر استعمال نہیں کیا جائے،(السنن الکبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: ۱۸۱۵۰) غزوۂ خیبر کے موقع سے فوجیوں نے کچھ بکریاں لوٹ لیں اور ذبح کر کے پکانے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بہت خفگی ظاہر فرمائی اور دیگیں الٹوا دیں۔(بخاری، حدیث نمبر: ۲۴۸۸) مالِ غنیمت کے سلسلہ میں یہ اُصول ہے کہ اولاََ مفتوحین کے مال، حکومت کے پاس جمع کئے جائیں، پھر اس میں سے پانچواں حصہ حکومت کے خزانہ میں محفوظ کر دیا جائے اور اسے رعایا کی بھلائی کے لئے خرچ کیا جائے، یہ رقم مسلمان رعایا پر بھی خرچ ہوگی اور غیر مسلم رعایا پر بھی، اس زمانہ میں فوجیوں کے لئے الگ '' تنخواہ'' نہیں ہوا کرتی تھی؛ اس لئے اس کے بعد جنگ میں حاصل ہونے والے مال کے بقیہ چار حصے فوجیوں میں تقسیم کر دیے جائیں ، بعض صورتوں میں حکومت اپنے اختیار ِ تمیزی اور عوامی مصلحت سے کسی مال کو روک بھی سکتی ہے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عراق کی مفتوحہ اراضی مجاہدین کے درمیان تقسیم نہیں فرمائی؛ بلکہ بیت المال کی ملکیت میں باقی رکھا؛ تاکہ ملک کے تمام شہری اس سے فائدہ اٹھاسکیں، (مرقاۃ المفاتیح: ۶؍۳۵۵۲) بہر حال تقسیم کے بعد جو مال جس کے حصہ میں پڑے گا، وہ اس کا مالک سمجھا جائے گا، اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مالِ غنیمت ہر غیر مسلم کے مال کو نہیں کہیں گے؛ بلکہ دشمن ملک کے حاصل شدہ مال کو مالِ غنیمت کہا جائے گا،اور ایسا بھی نہ ہوگا کہ جس کے ہاتھ جو آئے وہ اس پر قابض ہو جائے؛ بلکہ قانونی طریقہ پر ہی کوئی شخص اس مال کا مالک ہو سکتا ہے۔ مالِ غنیمت کا تصور دنیا کے تمام نظام ہائے قانون اور مذاہب میں رہا ہے، اسلام سے پہلے عرب کے قریب ایرانیوں اور رومیوں کی حکومت تھی، ایرانیوں کے یہاں بھی یہی اُصول تھا کہ وہ مفتوحین کے مال پر قبضہ کر لیتے تھے، رومی (جو عیسائی ہو گئے تھے) تورات کے قانون کو مانتے تھے، یہودی بھی اسی قانون پر عقیدہ رکھتے ہیں، اب دیکھئے کہ بائبل میں مالِ غنیمت کے بارے کیا کہا گیا ہے: '' اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کر دیوے، تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر، مگر عورتوں اور لڑکوں اور مویشی کو اور جو کچھ اس شہر میں ہو، اس کی ساری لوٹ اپنے لئے لے اور تو اپنے دشمن کی اسی لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے، کھائیو۔ (استثناء: ۲۰:۱۲- ۱۴) توریت میں جا بجا مفتوحین کو لوٹنے کا ذکر ہے، یہاں اگر ان سب کا ذکر کیا جائے تو بات لمبی ہو جائے گی؛ لیکن اس سلسلہ میں خاص طور پر '' گنتی'' اور '' استثناء'' نامی صحائف کو پڑھا جا سکتا ہے۔ اب خود ہمارے ہندو بھائی…