مولانا ڈاکٹرمحمد جہان یعقوب صدیوں کی جہاں گردی کے بعد یہودیوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرنے کی غرض سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کام کیا۔ 1897ء ''میں صہیونی تحریک'' معرض وجود میں آئی، جس کا بنیادی نصب العین فلسطین پر قبضہ کرنا اور ''ہیکل سلیمانی'' کو نئے سِرے سے تعمیر کرنے کے لیے عملی جدوجہد کرنا تھا، بڑے بڑے یہودی مالداروں نے اس تحریک کی پشت پناہی کی اور فلسطین کی زمینیں خریدنے اور وہاں یہودی بستیاں تعمیر کرنے کی غرض سے ان کی امداد کی۔ (1)یہودی سازش سے سلطنت ِ عثمانیہ کا خاتمہ:اس کے بعد1901ء میں ہٹلر نے ترکی خلیفہ سلطان عبدالحمیدؒ کو لالچ دینا چاہا کہ اگر وہ سرزمین ِفلسطین پر یہودی مملکت کے قیام کی اجازت دے دیں، تو یہودی ترکی کے تمام قرضے ادا کرنے کو تیار ہیں، لیکن سلطان نے اس پیشکش کو انتہائی حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا اور کہا: ''اس وطن کی سرزمین کو، جسے ہمارے آباؤاجداد نے خون دے کر حاصل کیا تھا، چند درہموں کے بدلے نہیں بیچیں گے، ہم اس وطن کی ایک بالشت برابر زمین بھی اس وقت تک نہیں دیں گے جب تک اس پر ہمارا خون نہ بہہ جائے۔'' اس بات پر یہودی، سلطان کے خلاف سرگرم ِعمل ہوگئے او ربالآخر1908ء میں انہیں خلافت سے معزول کردیا گیا اور سلطنتِ عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔ ء میں اسرائیلی وزیردفاع نے بیان دیاتھا:سلطان عبدالحمیدکی حکومت کا خاتمہ ہم نے کیا تھا۔یہ سلطنت عثمانیہ کے واحد غیور حکم ران تھے،جو یہودی عزائم کی راہ میں رکاوٹ تھے،چناں چہ اسی جرم میں یہودیوں نے ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔اس کے لیے یہودیوں نے اپنا روایتی' پروپیگنڈے کا ہتھیار' استعمال کیا،عوام کو خلیفہ کے خلاف اکسایا،سول نافرمانی کی سی صورتِ حال پید کی،جس کے نتیجے میں سلطان کی حکومت کاخاتمہ ہوگیا۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ:اس وقت تک فلسطین خلافت عثمانیہ کاایک صوبہ تھا۔پورے فلسطین میں کسی جگہ کوئی یہودی بستی موجود نہیں تھی۔سلطنتِ عثمانیہ نے پابندی لگا رکھی تھی کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں رہنے والے یہودی اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے وزٹ ویزے پر فلسطین آ اور چند روز قیام کرسکتے ہیں، لیکن انھیں فلسطین میں زمین خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت نہیںہوگی،کیوں کہ خلافت کے علم میں یہ بات تھی کہ یہودی فلسطین میں بتدریج آباد ہونے اور اس پر قبضہ جمانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، تاکہ وہ اسرائیل کے نام سے اپنی ریاست قائم کر سکیں۔ سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم ؒنے ،خلافت سے دست برداری کے بعد جو اپنی یاد داشیں مرتب کیں،ان میں لکھا ہے : یہودیوںکی عالمی تنظیم کے سربراہ ہر تزل نے متعدد بارمجھ سے خود ملاقات کر کے خواہش ظاہر کی کہ وہ فلسطین میں زمین خرید کر محدود تعداد میں یہودیوں کو آباد کرنا چاہتے ہیں، مگر میںنے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔پھر کہا کہ آپ ہمیں ایک اعلیٰ سطحی یونی ورسٹی قائم کرنے کی اجازت دیں،میں نے کہا کہ اس کی بھی صرف ایک صورت میں اجازت ہے،کہ یہ یونی ورسٹی فلسطین کے علاوہ کہیں بھی بنائی جائے،کیوں کہ مجھے اندازہ تھا کہ وہ اس یونی ورسٹی کو بھی یہودی آباد کاری کے لیے وسیلے کے طور پر استعمال کریں گے۔سلطان نے لکھا ہے : ایک بار ہرتزل نے میرے سامنے چیک بک رکھ کر منہ مانگی رقم دینے کی پیشکش بھی کی، جس کے جواب میں مَیںنے انتہائی تلخ لہجے میں ہرتزل کو ڈانٹ دیا اور اس سے کہا کہ میری زندگی میں ایسا نہیں ہو سکتا۔یہی تھا وہ جرم،جس کی پاداش میںسلطان کو خلافت سے معزول کر کے نظر بند کر دیا گیا۔ ان کو خلافت سے معزولی کا پروانہ پہنچانے والوں میں ترکی کی پارلیمنٹ کا یہودی ممبر بھی شامل تھا۔ سلطان کے بعد جو بھی عثمانی امرا آئے،وہ نرم روی سے چلتے رہے،یہاں تک کہ1920 ء میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا۔ خلافت ِ عثمانیہ کے سقوط کے بعدفلسطین کوبرطانیہ نے اپنے کنٹرول میں لے لیا اور برطانوی گورنر کی زیر نگرانی یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا، دنیا کے مختلف حصوں سے یہودی آتے اور فلسطین میں زمین خرید کر آباد ہو جاتے۔ اس موقع پر سرکردہ علمائے کرام نے صورت ِ حال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے یہ فتویٰ دیا کہ چونکہ یہودی فلسطین میں آباد ہو کر بیت المقدس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اپنی ریاست قائم کرنے کے خواہش مند ہیں، اس لیے یہودیوں پر فلسطین کی زمین فروخت کرنا شرعا ًجائز نہیں ،لہٰذافلسطینیوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اراضی یہودیوں کو فروخت نہ کریں۔ (حضرت مولانا محمداشرف علی تھانوی ؒ کی کتاب ''بوادر النوادر''میں اس موضوع پر خود ان کا تفصیلی فتویٰ بھی موجود ہے)۔ علما ئے کرام کی یہ مہم کارگر نہ ہوئی ۔اس کی جوہری وجوہ یہ تھیں:اول:حکومت کے ہم نوا علمانے عوام کو باور کرایا کہ حضرت مہدیؓ کے آنے کا زمانہ قریب ہے اوروہ یہودیوں کو ویسے بھی فلسطین سے بے دخل کرکے تمھاری اراضی تمھارے حوالے کردیں گے،اس لیے انھیں اپنی اراضی فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں،چند دن کی بات ہے،تمھیں یہودیوں سے رقم تو مل ہی رہی ہے،زمین بھی واپس تمھیں مل جائے گی۔دوسری وجہ یہ تھی کہ یہودی دگنی تگنی قیمتوں پر زمینیں خرید رہے تھے۔ اب مسلم اکثریتی فلسطین کے بیشتر علاقوں پر یہودی قابض ہیں۔مسجد اقصیٰ،جو انبیائے بنی اسرائیل کے سجدوں کی گواہ ہے،یہودبے بہبود کے پنجۂ استبداد میں ہے،وہاں مسلمانوں کو داخلے اور دینی رسوم تک ادا کرنے کی اجازت نہیں۔ستم بالائے ستم،اب وہاں امریکی سفارت خانہ بھی قائم ہونے جارہا ہے۔جس کے بعد مسلمانوں پر عرصۂ حیات مزید تنگ کیا جاسکتا ہے۔کوئی بعید نہیں کہ ہمارے مسلم حکم ران انکل سام کے اشارۂ ابرو پر اسرائیل کی حمایت کرنے لگ جائیں۔اگر ایسا ہوا ،تو یہ بہت بڑا المیہ ہوگا۔شاہ فیصل شہیدؒ اور بھٹو مرحوم نے مسلم اقوام متحدہ اور مالیاتی اداروں،نیز مسلم کرنسی کے لیے تحریک چلائی،جس کے جرم میں وہ اپنوں کی تیغ ستم کا نشانہ بنے۔صدام حسین ،معمر قذافی نے ان کا انجام دیکھ کر راستے بدلے،مگر انھیں بھی نہیں بخشا گیا۔ (2)یہودی سازش سے مسلمان باہم برسر پیکار:1914ء میں پہلی جنگ عظیم برپا ہوئی، تو بر…